Mokarram Faiz
Ghanim al Muftah
مصنوعی ذہانت کا بچھوں کی تعلیم پر اثر
مصنوعی ذہانت بولے تو وہ ہے جو دورے حاضر مے بچھوں کے مدد کیلئے بنائی گئ ہے اور یہ ایک ویب سائٹ ہے- ہمے اس کے نام سے ہی معلوم ہوتا ہے کے مصنوعی معنی بناوٹی اور ذہانت معنی عقلمندی ہے- اسلئے تو دورے حاضر کے بچھے کے لئے فائدہ اور نقصان دہ بھی ہے تو ہم اس مقالہ مے اسکے بارے مے تعرف کرینگے اور مصنوعی ایجابی اور سلبی کو مددے نظر رکھیںگے اور
موضوع کے لحاظ سے موضوع پیش کرینگے اور جنینگے
دورے حاضر مے مصنوعی ذہانت سے فوائد
اسکے فوائد لاکھوں میں شامل ہے۔ میں آپ کو کچھ بتاتا ہوں، اگر ہم مسلمانوں اور ہندوؤں میں تفريق پیدا کرنا چاہتا ہوں، تو ہم مصنوعی ذہانت کا استعمال کر سکتے ہیں۔
یعنی جیسے میں نے ایک تصویر لی اور میں چاہتا ہوں کہ اس میں اپنا نام شامل کروں، تو میں یہ کام بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے کر سکتا ہوں۔ اسی طرح اساتذہ کی طرف سے جو کام ہمیں دیے جاتے ہیں، وہ بھی ہم مصنوعی ذہانت کے ذریعے وقتاً فوقتاً مکمل کر سکتے ہیں، ا
ور اس میں زیادہ وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ وقت کی بچت بھی آج کے دور میں بہت ضروری ہے۔
اگر میں کوئی پروگرام منعقد کرنا چاہوں اور اس کا پوسٹر تیار کرنا ہو، تو وہ بھی میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے آسانی سے بنا سکتا ہوں۔ اور اگر مجھے کوئی تصویر صاف کرنی ہو، تو وہ بھی میں مصنوعی ذہانت سے کر سکتا ہوں۔ یعنی تقریباً ہر کام ہم مصنوعی ذہانت کے ذریعے انجام دے سکتے ہیں۔
تو یہ تھے مصنوعی ذہانت کے فائدے۔
دورِ حاضر میں مصنوعی ذہانت کے نقصان
مصنوعی ذہانت کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں، میں آپ کو بتاتا چلوں۔ جیسے کہ اگر ہم ہر وقت مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے رہیں تو ہمارا دماغ خود سے کام کرنا چھوڑ دے گا، اور ہر بات کے لیے ہم صرف مصنوعی ذہانت سے ہی پوچھیں گے۔ پھر ہم خود کتابوں، لائبریری وغیرہ سے کچھ تلاش نہیں کریں گے، اور یوں کتاب پڑھنے کا شوق اور اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی عادت بالکل ختم ہو جائے گی۔
مثال کے طور پر، اگر استاد نے کہا کہ فلاں مسئلے کو کتاب سے پڑھ کر سمجھنا ہے اور اگلے پیریڈ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دینا ہے، تو ہم کتاب پڑھنے کے بجائے سیدھا مصنوعی ذہانت سے پوچھ لیں گے اور اس کا جواب لکھ کر لگا دیں گے۔ لیکن اگر ہم خود کتاب پڑھتے، تو وہ جواب بھی ملتا اور اس کے علاوہ کئی اور نکتے بھی مل جاتے۔ اور اگر مکمل جواب نہ بھی ملتا، تب بھی کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ضرور ملتا۔ الگ الگ زاویے سے سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی۔
مصنوعی ذہانت بچوں کی تعلیم پر بھی اثر ڈال رہی ہے، اور وہ اثر منفی ہے۔ اب آپ کا سوال ہوگا:
مصنوعی ذہانت بچوں کی تعلیم پر کیسے اثر ڈال رہی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ہر بچے کی تعلیم کو برباد کر دے گی۔
جیسے ایک بچہ استاد (ٹیچر) بننا چاہتا ہے، تو وہ اس مقصد کے لیے بہت محنت کرتا ہے، برسوں تعلیم حاصل کرتا ہے، اور لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے۔ مگر جب وہ اس مقام تک پہنچے گا، تب تک مصنوعی ذہانت عام ہو چکی ہو گی، اور ہر بچہ اس دور میں گھر بیٹھے AI سے ہی علم حاصل کرے گا۔
تو جو بچہ استاد بننے کا خواب دیکھتا ہے، اُس کی ساری محنت، وقت، اور رقم برباد ہو جائے گی۔ نہ وہ اپنی تعلیم کا صحیح استعمال کر پائے گا، نہ کوئی عملی فائدہ حاصل کرے گا۔تو یہ تھیں مصنوعی ذہانت کے چند نقصانات۔
مصنوعی ذہانت کے بارے میں
مصنوعی ذہانت ایک ایسی کمپیوٹر مشین کو کہتے ہیں جو انسانوں کی طرح سوچ سکتی ہو، سیکھ سکتی ہو اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اسی کو “مصنوعی ذہانت” (Artificial Intelligence) کہا جاتا ہے۔
اس میدان کے بانی ایلن ٹورنگ کو مانا جاتا ہے، جنہوں نے 1950 میں اپنا مشہور “ٹورنگ ٹیسٹ” پیش کیا، تاکہ یہ پرکھا جا سکے کہ کیا مشینیں انسانوں جیسی ذہانت رکھ سکتی ہیں۔
جبکہ 1956 میں جان میکارتھی نے پہلی بار امریکہ میں ہونے والی ڈارٹ ماؤتھ کانفرنس میں “Artificial Intelligence” یعنی مصنوعی ذہانت کی اصطلاح استعمال کی، اور یہی موقع اسے باقاعدہ ایک سائنسی شعبہ بنانے کا آغاز تھا۔
نتیجہ:
میں نے مصنوعی ذہانت کے بارے میں اُس کے مثبت (اِیجابیات) اور منفی پہلوؤں (سلبیات) کو تفصیل سے بیان کیا، یہ بھی بتایا کہ یہ کب ایجاد ہوئی، کیا ہے، اور کیسے کام کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت بلاشبہ کئی شعبوں میں فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ بہت سے نقصانات بھی جُڑے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک یہ بچوں کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ براہِ راست اُن کی تعلیم پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
جب بچے ہر کام کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگیں، تو اُن کی سوچنے، سیکھنے اور خود کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔
اس لیے ہمیں مصنوعی ذہانت کو سمجھداری سے استعمال کرنا چاہیے، خاص طور پر تعلیم کے میدان میں، تاکہ یہ سہولت بنے زوال کا ذریعہ نہ بن جائے۔