خون پسینے میں ہو کر تر بیٹھ گیا
خون پسینے میں ہو کر تر بیٹھ گیا
انساں ہے مزدور بھی تھک بیٹھ گیا
غصّے میں وہ ناک پھلا کر بیٹھ گیا
میرا اس کے بعد مقدّر بیٹھ گیا
رسمن ہم نے اس کو عزّت بخشی تھی
اور وہ سیدھا سر کے اوپر بیٹھ گیا
جتنے منہ اس سے بھی زیادہ باتیں تھیں
میرے برابر وہ کیا آ کر بیٹھ گیا
میرے دل میں ایسے بیٹھ گیا کوئی
جیسے دریا میں اک پتھر بیٹھ گیا
راز کی باتیں غیروں کے منہ سن کر
لمحہ بھر کو میں چکرا کر بیٹھ گیا
ایسے منزل پانے کے حالات بنے
بچ سفر میں ارشدؔ رہبر بیٹھ گیا