روز ہی ایک غزل ہو یہ ضروری تو نہیں
…غزل
آج آمد ہوٸی۔کل ہو یہ ضروری تو نہیں
روز ہی ایک غزل ہو یہ ضروری تو نہیں
صحنِ گلشن میں کھلا کرتے ہیں کچھ کالے گلاب
سب کا چہرہ ہی کنول ہو یہ ضروری تو نہیں
زندہ لاشیں بھی یہاں ہم نے کٸی دیکھی ہیں
موت کا سب کو خلل ہو یہ ضروری تو نہیں
میں سہارا تجھے دے سکتا ہوں مضبوطی نہیں
ہاتھ میرا بھی نہ شل ہو یہ ضروری تو نہیں
تشنگی میں کوٸی زمزم نہیں مانگا کرتا
پیاس کو گنگا کا جل ہو یہ ضروری تو نہیں
اے دلِ زار ہراک بات پہ روتا کیوں ہے
ساری مشکل ابھی حل ہو یہ ضروری تو نہیں
آٸیے مسٸلے سب پیار سے حل کرتے ہیں
بے سبب جنگ و جدل ہو یہ ضروری تو نہیں
اسد نظامی