Ishq
عشق کا اپنے تجارت بھی نہیں کر سکتے۔
دور وہ اتنا زیارت بھی نہیں کر سکتے۔
حاکم وقت تیرا فیصلہ منظور نہیں۔
پر ملازم ہیں بغاوت بھی نہیں کر سکتے۔
جھوٹ جب اُسکا زمانے کو ہنر لگتا ہے۔
اب تو سچ بات کی ہمت بھی نہیں کر سکتے۔
بچے کہتے ہیں خیالات اپنے پاس رکھو۔
ہے عجب دور نصیحت بھی نہیں کر سکتے۔
اپنا تہذیب و تمدن اور ثقافت محفوظ۔
جو ملا ہے کیا حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔
رب کے احکام کو طاقوں پر سجا دیئے ہمنے۔
کیا ہم قرآں کی تلاوت بھی نہیں کر سکتے۔
آدمی کے سبھی اقدار منجمد ہوکر۔
گر چکے اتنے ریایت بھی نہیں کر سکتے۔
صرف ہم سچ ہی لکھینگے ہمیں نہ بہلاؤ۔
صغیر قلم کی تجارت بھی نہیں کر سکتے۔