ہونٹ جلتے ہیں مسکرانے میں
یہ ہوا اصلیت بتانے میں
مشکلیں بڑھ گئیں زمانے میں
تب یہ چولہا دھوان اگلتا ہے
خون جلتا ہے کارخانے میں
غم دہکتے ہیں اس قدر دل میں
ہونٹ جلتے ہیں مسکرانے میں
یہ کرشمہ نہیں تو پھر کیا ہے
جی رہا ہوں ترے زمانے میں
سہمی سہمی ہیں فاختائیں بہت
باز بیٹھے ہیں کچھ نشانے میں
عشق کی جنگ بھی عجب شے ہے
جیت ہوتی ہے ہار جانے میں
ہم فقیری سے لو لگا بیٹھے
ٹھونکریں مارکر خزانے میں
انکی پھینکی غلیظ کیچڑ پر
ہم لگے ہیں کنول کھلانے میں
ہم لگایئں گہار اب کس سے
عدل بکنے لگا ہے تھانے میں
جسم ارشدؔ لہولہان ہوا
باغباں سے چمن بچانے