ہمدرد
ہمدرد کیسے کیسے ہم کو ستا رہے ہیں
کانٹوں کی نوک سے جو مرہم لگا رہے ہیں
میں بھی سمجھ رہا ہوں مجبوریوں کو اُنکی
دل کا نہیں ہے رشتا پھر بھی نبھا رہے ہیں
بھٹکا ہوا مسافر اب راستہ نہ پوچھے
کچھ لوگ ہیں یہاں جو سب کو چاہ رہے ہیں
پلکیں چڑی یہ آنکھیں جو نیند کو ترستیں
سپین مگر کسی کے انکو جگا رہے ہیں
مغرور آپ کیوں میں، ہر بات میں نہیں کیوں
اب آپ قائدہ کچھ بچا اٹھا رہے ہیں
شیو کمار بلگرامی