کچھ متفررق اشعار
اگر آپ چاہیں تو گردن اڑا دیں
یہ ممکن نہیں ہم قصیدہ سنا دیں
کل یہ بھائی تھے پڑوسی جو بنے بیٹھے ہیں
اب سمٹتے ہوئے، دالان نظر آتے ہیں
کہیں خرگوش بن کر خواب سوتے ہی نہ رہ جائیں
سفر میں دیر تک آرام بھی اچھا نہیں ہوتا
روح کا یہ میلا پن دور کر لیا ہوتا
آپ گنگا جل سے تو، روز ہی نہاتے ہیں
مدّتیں ہوئیں ارشدؔ ہم کو شہر میں لیکن
گاؤں کے وہ چوبارے آج بھی بلاتے ہیں
ہمارے سنسکاروں کی مثالیں ہی الگ ہیں
بہو اندھے سسر سے اب بھی پردہ کر رہی ہے
ایک ماں کی جان لے لی رشوتی ماحول نے
چل رہا تھا نرس، آشا اور دائی کا حساب
اسے مذہبوں کی نہ گھٹی پلاؤ
وطن کا جو ارشدؔ بھلا چاہتا ہے
نہیں زندگی پر کوئی زور اپنا
خدا کی امانت کبھی بھی بلا لے
ضرورت کبھی چار کاندھوں کی ہوگی
تعلق زمانے سے کچھ تو بنا لے
جسے بھی بری لگ رہی ہے یہ دنیا
نگاہیں وہ اپنے گریباں پہ ڈالے
دل تو ارشدؔ ہمیں ہی جلانا پڑا
اس زمانے کو پر روشنی مل گئی
اہل دنیا کو مات دے آ ئے
گھر میں اک امتحان باقی ہے
شکریہ، جو آ پ نے چھینا سہارا
بچ گئے ہیں آ ج ہم بیساکھیوں سے
بولتے کیا باپ بننے کی خوشی میں
لٹ گئےہم ڈاکٹر سے، دائیوں سے
وقت پڑنےپہ یہی لوگ بدل جاتے ہیں
جیت راون کی اگر ہو تو بدھائی دینگے
زخم پر زخم ہمیں خوب دئے ہیں تم نے
خار کی نوک سے مرہم نہ لگایا ہوتا
آج تہذیب ہماری بھی سلامت ہوتی
پاٹھ کردار کا بچوں کو پڑھایا ہوتا
چھوڑ کر گاؤں تم کو بھلا کیا ملا
شہر میں تو سگا، غیر سا ہو گیا
وہ نصیحت ہمیں آج کرنے لگا
لگ رہا ہے کہ بیٹا بڑا ہو گیا
عزّت پر یوں آن پڑی تھی
گھر میں ہی کمزور کڑی تھی
پہلے سب پر وقت بہت تھا
پہلے کس کے پاس گھڑی تھی
چھوڑا تھا جب، سب نے تنہا
بس گردش ہی ساتھ کھڑی تھی
آج سوالی لوٹ گیا پھر
گھنٹی گھر کی بند پڑی تھی
واقف اگر نہیں ہیں، ذرا بھی وہاں سے ہم
کیسے زمیں کی بات کریں آسماں سے ہم
کیوں سر جھکائیں غیر خداؤں کے سامنے
سب کچھ تو پا رہے ہیں ترے آستاں سے
نامہءِ اعمال بھی خالی رہا
اور خزانے بھی یہیں پر رہ گئے
یہ ہوا اصلیت بتانے میں
مشکلیں بڑھ گئیں زمانے نے میں
تب یہ چولہا دھواں اگلتا ہے
خون جلتا ہے کار خا نے میں
عشق کی جنگ بھی عجب شے ہے
جیت ہوتی ہے ہار جانے میں
میں يقيناً ہوں جنتی بچہ
ماں کے بارے میں سوچتا ہوں میں
پاک ہے پیار اس قدر میرا
جسم کو بھول کر ملا ہوں میں
سکّوں کے بھاؤ لے کے دعا راہ گیر سے
کرتے ہیں کاروبار یہاں سب فقیر سے
کچھ سوچ کر فصیل اٹھائی نہیں ابھی
فلحال گھر کو بانٹ لیا ہے لکیر سے
مولا کی قسم ہم ہیں محبت کے پجاری
سجدے بھی ہمارے ہیں ہمارا ہی بھجن ہے
تعظیم آرتی کی ہے آدر اذاں کا ہے
دنیا میں یہ کمال تو ہندوستاں کا ہے
ناحق ہی دشمنوں کو یہ الزام دے دیا
گلشن اجاڑنے کا جتن باغباں کا ہے
ارشدؔ نہیں ہے کوئی گلہ غیر سے ہمیں
غدّار ہے تو کوئی اسی کارواں کا ہے
بس بھوک پرندوں کو ادھر لے کے گئی تھی
اس جال میں مرضی سے پھنسا کوئی نہیں ہے
زنجیر ہے فرقوں کی، اسے توڑ بھی ڈالو
ہم ایک ہیں آپس میں جدا کوئی نہیں ہے
لوگ تصویر ہی کھنچوا کے مدد کرتے ہیں
ایک سے بڑھ کے یہاں ایک تماشائی ہے
حق پرستی جہاں دم توڑ رہی ہے ارشدؔ
میں نے اس دور میں جینے کی قسم کھائی ہے
آب و دانے کا بندوبست نہیں ہے لیکن
ہم پرندوں کو تو پنجرے سے اڑا سکتے ہیں
ہار جاتے ہیں جو خود شوق سے جیتی بازی
قتل رشتوں کا وہی لوگ بچا سکتے ہیں
ماں گزرتی ہے کرب سے کتنا
پھر بھی دیوار ہم اٹھاتے ہیں
یہ تو بچوں کی مہربانی ہے
لوگ مجھ کو جواں بتاتے ہیں
چاند کو کون توڑ پایا ہے
کیوں وہ پاگل ہمیں بناتے ہیں
خوبصورت پھر جہاں ہو جائے گا
پہلے خود کردار کو اونچا کرو
سر پہ ہو تلوار بھی ارشدؔ اگر
بس خدا کے سامنے سجدہ کرو
ملا کچھ بھی نہیں کھویا بہت ہے
وفا کی راہ میں گھاٹا بہت ہے
یقین اُس کو محبت پر نہیں ہے
ملن سے قبل جو سجتا بہت ہے
چمکتی کار میں ہو جس کا سودا
وہ لڑکا واقعی سستا بہت ہے
کہیں بجتے ہیں جس دم چار برتن
یہ دل شہنائی سے ڈرتا بہت ہے
برے اتنے بھی دن آئے نہیں ہیں
ابھی تو ساتھ سایہ چل رہا ہے
میرے دل میں ایسے بیٹھ گیا کوئی
جیسے دریا میں اک پتھر بیٹھ گیا
رسمن ہم نے اس کو عزّت بخشی تھی
اور وہ سیدھا سر کے اوپر بیٹھ گیا
ایسے منزل پانے کے حالات بنے
بیچ سفر میں ارشدؔ رہبر بیٹھ گیا
درد ارشدؔ سوئی نے دور کیا
خار تلوار سے نہیں نکلا
آج سیکھا وفاداریوں کا سبق
دیکھ کر بے وفا، بے خبر کی طرف
پیٹنا ہو ڈھنڈورا جہاں میں اگر
راز گونگوں سے پھر کہہ دیا کیجیے
اتنا بچوں پہ دھیان دینا ہے
جیسے خود امتحان دینا ہے
اب ضرورت کہاں ہے شعلوں کی
بس بھڑکتا بیان دینا ہے
آ ج ہر ایک جگہ سر نہ جھکانا پڑتا
سامنے رب کے اگر سر کو جھکاتے جاتے
اعمال ہوں بلند تو چہرہ چمک اٹھے
میکپ کی روز، روز یہ پالش فضول ہے
اندھیرا نفرتوں کا ملک میں اب آ نہیں سکتا
محبت کے چراغوں کو لہو سے ہم جلاتے ہیں
انہیں آ تا ہے رشتوں کو نبھانے کا ہنر ارشدؔ
جو بازی جیت کر اکثر خوشی سے ہار جاتے ہیں
نیکی جال میں پھنستی کیسے
نیکی سے خالی دریا تھا
ہم بھی ارشدؔ شیر ببر تھے
ڈھیر ہوئے جب آنکھ لڑی تھی
صلہ ہے یہ ارشدؔ وفا کا
وہ صف میں اکیلا کھڑا ہے
ڈھونڈنے کو چلا پارسا آدمی
جب کہ میں ہی تھا سب سے برا آدمی
نسل در نسل آئی ہیں خدّاریاں
پیٹھ پر وار کرتے نہیں یار ہم
ہندو، مسلم بنانے سے فرصت ملے
تو زمانے کو انساں بنانا کبھی
بچیاں قتل ہوتی ہیں جس میں سدا
وہ کلینک کبھی تو کھنگالا کرو
یوں چراغوں کی محفل ضروری نہیں
ہو سکے تو دلوں میں اجالا کرو
مال و زر کے لیے گاؤں چھوڑ آیا میں
اور وہیں پر ہی دنیا مری رہ گئی
وقت آخر یہ کر گیا احسان
میرا سایا بڑھا گیا سورج
مکاں بن گیا ہے، کہو ان سے ارشدؔ
اگر ہو مناسب، اسے گھر بنا دیں
اسے تو فائدے کے خوب فتوے یاد رہتے ہیں
خطائیں بھولتا ہے اور سجدے یاد رہتے ہیں
کسی سے وہ الجھنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا
جسے معصوم سے گھر کے فرشتے یاد رہتے ہیں
انسان تو کیا لوگ خدا سے بھی نہیں خوش
اس دور میں سب کا تو بھلا کوئی نہیں ہے
خواب میں ماں کی زیارت کا کرشمہ دیکھو
میری آنکھوں میں چمک آج تلک باقی ہے