متفررق اشعار
متفررق اشعار
یہ ہوا اصلیت بتانے میں
مشکلیں بڑھ گئیں زمانے میں
عشق کی جنگ بھی عجب شے ہے
جیت ہوتی ہے ہار جانے میں
کھل رہی یہاں بے حد پیار کی کمی ارشد
گاؤں کے وہ چوبارے آج بھی بلاتے ہیں
اتنا بچّوں پہ دھیان دینا ہے
جیسے خود امتحان دینا ہے
پھر وہ دستار تک نہیں آتا
ہم جو حد سے گزر گئے ہوتے
تم وفادار پنچھیوں کی طرح
دن دھلے اپنے گھر گئے ہوتے
قتل رشتوں کا ہونے سے بچ جاۓگا
خون کے گھونٹ ہنس کر پیا کیجئے
آج تہذیب ہماری بھی سلامت ہوتی
پاٹھ کردار کا بچوں کو پڑھایا ہوتا
شکریہ جو آپ نے چھینا سہارا
بچ گئے ہیں آج ہم بیساکھیوں سے
کہیں خرگوش بن کر خواب سوتے ہی نہ رہ جایئں
سفر میں دیر تک آرام بھی اچّھا نہیں ہوتا
الجھنے کا نپٹنے کا زمانہ ہو گیا رخصت
ہمیں معصوم سے گھر کے فرشتے یاد رہتے ہیں
ہے اجداد کی بیش قیمت وراثت
اس عزت کو رکھنا ہمیشہ بچاکر
نہیں زندگی پر کوئی زور اپنا
خدا کی امانت کبھی بھی بلا لے
ملیں چار کاندھے گھڑی آخری ہو
تعلّق زمانے سے اتنا بنا لے
حقارت نہ کر ہم فقیروں سے اتنی
ہمیں سے زمانہ دعا چاہتا ہے
اگر آپ چاہیں تو گردن اڑا دیں
یہ ممکن نہیں ہم قصیدہ سنا دیں
چاند تاروں کی روح کانپ اٹھی
دیکھ کر ڈوبتا ہوا سورج
مال و زر کے لیے گاؤں کو چھوڑکر
لگ رہا ہے کہ دنیا وہیں رہ گی
زندگی میں مرے ہیں کی بار ہم
دوستی اس طرح بھی نبھانی پڑی
آج پھر فون اس نے مجھے کر دیا
بجھ چکی آگ پھر سے جلانی پڑی
یہ چراغوں کی محفل ضروری نہیں
ہو سکے تو دلوں میں اجالا کرو
دولتیں خوب ارشد کما ہی چکے
اب دعائیں سبھی سے کمانا کبھی
خبر ہی نہیں تھی پتہ ہی نہیں تھا
ستم گر ہمارے ہی گھر میں مکیں تھا