ظلم کی انتہا ہونے دو
کیا بھروسہ کیا جاۓ زمانے پر
سب نے مجبور کو رکّھا ٹھکانے پر
آ گئے سر پھروں کے ہم نشانے پر
بے سبب اڑ گئے تھے سچ بتانے پر
ظلم کی انتہا ہے آج، ہونے دو
ایک دن آئنگےیہ بھی نشانے پر
روشنی نے ہارنا سیکھا نہیں ہے
سب تلے ہیں چراوغوں کو بجھانےپر
اس قدر بھی سخی بن کر نہ اتراؤ
نام سب کا لکھا ہے دانے دانے پر
خود بنایا تھا رشتہ شوق سے اس نے
اب لگا ہے تعلّق خود مٹانے پر
ساتھ دل سے نبھایا تھا سدا ارشدؔ
ٹوٹ کر رہ گئے ہیں آزمانے پر