جانے کہاں وہ دن گئے فصل بہار کے
جانے کہاں وہ دن گئے فصل بہار کے۔
ہمیں انتظار میں رہے بس تیرے پیار کے۔
💗
چھوڑا ہے تم نے جسم کہاں روح اُڑ گئی
خاموش ہو گئے ہیں تمہیں سب پکار کے۔
💗
یہ شہر جل رہا ہے کسی کے بیان سے ۔
ہیں لفظ لفظ چرچے کِسی اشتہار کے۔
💗
امید سے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں۔
یہ جانور بھی بھوکے فقط ہیں دلار کے۔
💗
آنکھوں میں ہے تھکان بدن چور چور ہے۔
آئے ہو تم کہاں سے یوں راتیں گزار کے۔
💗
الجھی ہے پیچ و خم میں میری زندگی صنم۔
ملتا سکون ہے تیری زلفیں سنوار کے۔
💗
مشکل بہت “صغیر” تیرے بن ہے زندگی۔
دل کو ہے کچھ سکون مگر صدقے یار کے۔
💗💗💗💗💗💗