تجھ سے جو عشق کیا سب سے ہے رشتہ ٹوٹا۔
تجھ سے جو عشق کیا سب سے ہے رشتہ ٹوٹا۔
ورق در ورق پڑھا اسباق سے ناطہ ٹوٹا۔
کس طرح لٹ گیا یہ دل ہی میرے سینے سے۔
نہ کوئی ضرب لگا نہ کوئی تالا ٹوٹا۔
جتنے بھی خواب سجائے تھے سبھی ٹوٹ گئے۔
دل ایسے ٹوٹا ہے جیسے کوئی شیشہ ٹوٹا۔
رات کیسے یہ گزاری ہے اضطرابی میں۔
قہر بن کر کے صبح مجھ پے اُجالا ٹوٹا۔
سونا چاندی ہیرا موتی نہ کوئی شیش محل۔
ہوئے بے کار سبھی پیار کا دھاگہ ٹوٹا۔
زندگی موت کے سائے میں جی رہی ہے صغیر۔
اب تو لگتا ہے کسی شاخ سے پتہ ٹوٹا۔
ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی خیرا بازار بہرائچ یو پی انڈیا