بس اڑانوں پہ چلا ہی نہیں
مجھ کو دیپک دلوں کا بنایا گیا
دن ڈھلے شوق سے پھر جلایا گیا
ہنستے ہنسے نکل آہے آنسو مرے
اس قدر کچھ مجھے گدگدایا گیا
آج انسا نیت پانی – پانی ہوئی
حق پرستی کو سولی چڑھایا گیا
پہلے روکر مرا حال پوچها گیا
پھر اسے خوب ہنس کر اڑایا گیا
عمر بھر راہ ہم دیکھتے ہی رہے
اب ہتھیلی پہ سورج اگایا گیا
بس اڑانوں پہ ارشد چلا ہی نہیں
ہار کر پھر نشیمن جلا یا گیا