Gazal
دل جس نے چرایا ہے وہ ہوشیار تو ہوگا ۔
جب چوٹ لگے گی تو دل بیدار تو ہو گا ۔
تو میری امانت ہے تو ہی میری خواہش۔
موت سے پہلے تیرا دیدار تو ہوگا۔
ہمدرد سبھی تیرے لگتے ہیں یہ پروانے۔
انار چاہتا ہے تو بیمار تو ہوگا۔
شاخیں بھی لچک جاتی ہیں اکثر ہی پھل پا کر ۔
پھل پانے تک منزل مگر دشوار تو ہو گا۔
ترے حسن کی غماز تیری پیاری سی آنکھیں۔
تُجھ پر ہے جاں نثار تو دلدار تو ہوگا۔
کچھ ہوگی ظرافت صغیر ان کے دلوں میں۔
نفرت کا جو محل ہے مسمار تو ہو گا۔
ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی خیرا بازار بہرائچ