Dost
اے میرے دوست جب دنیا میں تو سلامت ہے ۔
میں سوچتا ہوں یہی دوستی امانت ہے۔
قدم قدم پر مجھے تو نے سنبھالا اکثر
میں کامیاب ہوا یہ تیری عنایت ہے ۔
خدا کی دی ہوئی نعمت کا یہ سرمایہ ہے۔
ہمارے بیچ میں قائم رہی محبت ہے ۔
صرف اپنے لئے جیتا ہے جانور ہے وہ ۔
کام ہر ایک کے آنا تمہاری عادت ہے ۔
تو تو جوہر ہے تیرا قدر جوہری جانے۔
ہیرا اور کوئلہ کا ساتھ بھی تو فطرت ہے۔
تجھ پہ غصہ اتارتا ہوں جب۔
آتی تنہائی میں ندامت ہے۔
روٹھ جائے تو سو بار مناؤں تجھ کو۔
بھول جانا تیرا میرے لئے قیامت ہے ۔
ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی خیرا بازار بہرائچ