یہ سوکھے ہونٹ سمندر کی مہربانی
یہ سوکھے ہونٹ سمندر کی مہربانی ہے.
جو میری پیاس بجھا دے کہاں وہ پانی ہے۔
❤️
وہ کھیلتا ہے سمندر کی لہر میں لیکن۔
عجیب پیاس ہے اسکی عجب کہانی ہے۔
❤️
وہ اپنے لہجے کو شاید بدل نہیں پایا۔
نئی شراب ہے بوتل مگر پرانی ہے۔
❤️
ظلم کو سہنا بھی ظالم کی ہے طرف داری۔
مجھے تو لگتا ہے خاموشیاں بے معنی ہے۔
❤️
وہ اپنی ذات میں یکتا ہے میرا مالک ہے۔
وحدہ؛ لا شریک اس کا کون ثانی ہے
❤️
ہماری آنکھ سے نیندیں بھی روٹھ کر اب تو۔
چلی گئی ہیں، تمہیں بات یہ بتانی ہے۔
❤️
کسے سناتے ہم حال دل تمہارے سوا۔
دفن ہے سینے میں پر درد یہ کہانی ہے۔
❤️
سمجھ وه جائے گا اس دل کی بے قراری کو۔
ہاں مگر سچ ہے یہی بات تو چھپانی ہے۔
❤️
راستے پیار کے ہم مانتے ہیں مشکل ہے۔
تعلقات تو ہر حال میں نبھانی ہے۔
❤️
صغیر چھوڑ گیا اس کو یاد کیا کرنا۔
نہ انتظار ہے آنکھوں میں اور نہ پانی ہے۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️