اجالوں کا بہانہ
چھوڑکر گھر لگے ہیں گھر چلانے میں
سب جوانی گنوا دی کارخانے میں
ایک تقدیر نے بستی جلائی تھی
ہم لگے ہیں وہی شعلہ بجھانے میں
اب کچہری پہنچ کر ہو گیا احساس
کیس سستا نپٹ جاتا ہے تھانے میں
زندگی پر منافع خور حاوی ہیں
زہر اب کے ملایا ہے کرانے میں
اس دفع بھی اجالوں کا بہانہ ہے
کچھ دئیے ہی لگے ہیں گھر جلانے میں
وہ ہمیشہ ہی کیچڑ پھینک جاتے ہیں
ہم لگے ہیں کمل اس پر کھلانے میں
زیر جب دشمنوں نےکر دیا ہم کو
پھر لگے آستینیں وہ چڑھانے میں
غم ہمارے بہت بونے رہے ارشد
دیکھ کر غم زدہ ڈھیروں زمانے میں