خوف کھاتی ہے پیاس پانی سے
تیر ترکش کمان باقی ہے
حوصلوں میں اڑان باقی ہے
جسم میں تھوڑی جان باقی ہے
آخری امتحان باقی ہے
عشق کی ہار کوئی ہار نہیں
جیتنے کو جہان باقی ہے
خوف کھاتی ہے پیاس پانی سے
باڑھ کا اک نشان باقی ہے
گرم بستر کے ہم کہاں عادی
اوڑھنے کو تھکان باقی ہے
چھوڑکر گاؤں بچ سکی ہے جان
اس ندی کا کٹان باقی ہے
فیل دنیا میں ہم کبھی نہ ہویے
گھر میں اک امتحان باقی ہے
کھیت سارے وفا کے سوکھ چکے
عاشقی کا لگان باقی ہے
ایک ہو جایںگے کبھی ہم بھی
کنڈلی کا ملان باقی ہے
ارشد رسول