جو بھی شیشہ ۔۔۔
جو بھی شیشہ پتھروں کو آئینہ دکھلاۓ گا
ٹوٹ جاۓ گا یقینا وہ نہیں بچ پائے گا
بھول جاؤ پھول برسیں گے کبھی اس ہاتھ سے
سنگ کو برسانے والا سنگ ہی برسائے گا
خوب اس کی حسرتیں ہیں خوب اس کی خواہشیں
توپ کے منھ میں گھڑی بھر بیٹھ کر مسکاۓ گا
ایک دن غیرت جگے گی بے حیا میں بھی کبھی
کب تلک وہ در پہ آ کر در سے واپس جاۓ گا
آج پھر روٹھا ہوا ہے دل مرا مجھ سے یوں ہی
دیکھتے ہیں نا سمجھ کو کون اب سمجھاۓ گا
۔۔۔شو کمار بلگرامی