آنسوں کے سمندر
لوگ یوں کمزور ہم کو کہہ گئے
ظلم سارے ہم خوشی سے سہہ گئے
منہ چڑھانے میں لگا تھا جب فریب
لب مرے خاموش ہو کر رہ گئے
اک ذرا انکار ہم سے کیا ہوا
نیکیوں کے ڈھیر سارے ڈھہہ گئے
آس بھی جنّت کی باقی رہ گئی
سب خزانے بھی یہیں پر رہ گئے
ایک ہچکی غم ہی ایسا دے گئی
آنسوں کے پھر سمندر بہہ گئے
زندگی پوری ہوئی ارشدؔ رسول
آپ کے بس کارنامے رہ گئے