"یادیں... جو یاد رہ جاتی ہیں"
“یادیں… جو یاد رہ جاتی ہیں”
زندگی ایک مسلسل سفر ہے — ہر لمحہ ایک نیا موڑ، اور ہر موڑ پر ایک نئی کہانی۔
لیکن ان کہانیوں کی سب سے حسین اور سب سے دردناک پرچھائیاں جو تمام عمر ہمارے ساتھ چلتی ہیں، وہ ہوتی ہیں “یادیں”۔
یادیں… جو بیتے ہوئے لمحوں کی خوشبو لیے ہمارے دل کے کسی کونے میں بسی رہتی ہیں۔
کبھی دل کو مسکرا دیتی ہیں، تو کبھی آنکھوں کو نم کر جاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزرا ہوا ہر لمحہ قیمتی ہوتا ہے —
کیونکہ اسی میں چھپی ہوتی ہیں وہ ان گنت باتیں، احساسات، رشتے،
جو ہماری روح کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یادیں ہمیں ڈھونڈ ہی لیتی ہیں۔
کچھ یادیں میٹھی ہوتی ہیں —
بچپن کی کھنکتی ہنسی، کسی اپنے کی مسکراہٹ، پہلی محبت، پہلی کامیابی…
جو دل کو ایسے گدگداتی ہیں جیسے کوئی پرانا نغمہ، جو برسوں بعد بھی سماعت میں رس گھول دے۔
لیکن ہر یاد میٹھی نہیں ہوتی۔
کچھ یادیں زہر کی طرح ہوتی ہیں —
کسی عزیز کی جدائی، ٹوٹا ہوا بھروسہ، ادھوری خواہشیں…
ایسی یادیں نہ صرف دل کو بلکہ روح تک کو زخمی کر جاتی ہیں۔
یہ یوں ہی نہیں آتیں — اور جب آتی ہیں، تو دل کا سکون چھین لیتی ہیں۔
پھر بھی، یہ بھی سچ ہے کہ ہم یادوں سے بھاگ نہیں سکتے۔
یادیں مدھم ہو سکتی ہیں، مگر مٹائی نہیں جا سکتیں۔
یہ ہمارے وجود کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتی ہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا ماضی ہی ان کا حال بن جاتا ہے —
وہ انہی بیتے لمحوں میں جیتے ہیں، جہاں انہیں سکون ملتا ہے۔
اور کچھ لوگ اپنے آج کو اس طرح جیتے ہیں کہ کل کو وہی لمحے حسین یادیں بن جائیں۔
ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی زندگی کو اس طرح جئیں کہ ہر لمحہ یادگار بن جائے۔
ایسے لمحے چنیں جو ہمیں مسکرانا سکھائیں — نہ کہ رونے کا سبب بنیں۔
کیونکہ اگر یادیں ہماری تحریک بنیں، تو ہمیں طاقت دیتی ہیں،
اور اگر بوجھ بن جائیں، تو ہمیں اندر ہی اندر توڑ دیتی ہیں۔
یادوں کو ضرور جئیں، مگر انہیں اپنے آج پر حاوی نہ ہونے دیں۔
جو بیت گیا، وہ اب صرف ایک صفحہ ہے —
اگر اسے بار بار پڑھنا دکھ دیتا ہو،
تو بہتر ہے کہ اس پر ایک نشان لگا کر آگے بڑھ جایا جائے۔
وقت کی فطرت بھی عجیب ہے —
آج کی ہنسی کل ایک یاد بن جاتی ہے۔
اور پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے،
جب ہم خود بھی کسی کی یاد بن جاتے ہیں۔
یہی ہے زندگی کی سب سے کڑوی اور سب سے سچی حقیقت۔
اسی لیے آج کو پوری شدت سے جئیں۔
ہر رشتہ، ہر احساس، ہر لمحہ — اس طرح جئیں کہ جب وہ لمحہ گزر جائے،
تو کوئی پچھتاوا نہ ہو… بس ایک میٹھی سی مسکراہٹ باقی رہ جائے ہونٹوں پر۔
اچھی یادوں کو اپنی طاقت بنائیں، اور بری یادوں کو سبق۔
کیونکہ آخر میں،
یہی یادیں ہوں گی جو آپ کی شامِ زندگی میں چپ چاپ آ کر
آپ کے دل کو تھام لیں گی…
اور آپ کے ہونٹوں پر ایک پیاری سی مسکراہٹ بن کر ٹھہر جائیں گی۔
ڈاکٹر فوزیہ نسیم شاد