محبوب
سہانی صبح کی رنگت شباب جیسی ہے
میرے حبیب کی صورت گالب جیسی ہے
ہزاروں سال سے اسکی ہی مدح کرتا ہوں
کہ اس کہ باغ کی الفت کتاب جیسی ہے
نہیں ہوں بھوال میں اس کہ رفیق کا چہرا
کہ اس کہ پیار کی عادت سراب جیسی ہے
اسے ہوں دیکھتا جب بھی تو دل یہ کہتا ہے
کہ اس سے دور کی الفت عذاب جیسی ہے
جواس کو دیکھا کبھی خوؔا ب نے تو بوال یہ
تمہارے زلف کی نکہت شراب جیسی ہے