Sahityapedia
Sign in
Home
Your Posts
QuoteWriter
Account
6 Oct 2021 · 1 min read

اجالوں کا بہانہ

چھوڑکر گھر لگے ہیں گھر چلانے میں
سب جوانی گنوا دی کارخانے میں

ایک تقدیر نے بستی جلائی تھی
ہم لگے ہیں وہی شعلہ بجھانے میں

اب کچہری پہنچ کر ہو گیا احساس
کیس سستا نپٹ جاتا ہے تھانے میں

زندگی پر منافع خور حاوی ہیں
زہر اب کے ملایا ہے کرانے میں

اس دفع بھی اجالوں کا بہانہ ہے
کچھ دئیے ہی لگے ہیں گھر جلانے میں

وہ ہمیشہ ہی کیچڑ پھینک جاتے ہیں
ہم لگے ہیں کمل اس پر کھلانے میں

زیر جب دشمنوں نےکر دیا ہم کو
پھر لگے آستینیں وہ چڑھانے میں

غم ہمارے بہت بونے رہے ارشد
دیکھ کر غم زدہ ڈھیروں زمانے میں

Loading...