پتھر میں شیشہ جڑا ہے
جگر دیکھ کتنا بڑا ہے
کہ پتھر میں شیشہ جڑا ہے
سدا غیر کی ہر خوشی کو
وہ اپنوں سے اکثر لڑا ہے
لہو سے کل جو تر بتر تھا
مسیحا وہ بن کر کھڑا ہے
ہمیں قد بڑھاکرخوشی ہے
مگر فکر میں وہ بڑا ہے
سلیقہ سے اس کو تراشو
ابھی تو یہ کچا گھڑا ہے
قدم لڑکھڑانے لگے ہیں
بلندی سے پالا پڑا ہے
وفا کا یہی اک سلا ہے
وہ صف میں اکیلا کھڑا ہے
کراے کے پیروں کےدم پر
کوئی آج ہم سے بڑا ہے