غزل
تم ہو میرے لیے زندگی کی طرح۔
چھوڑ کر جاؤ نا ہر کسی کی طرح ۔
چھوڑ کر کے زمانہ بھروسہ کیا۔
موڑ لینا نہ رخ اجنبی کی طرح۔
مل گئی ہر خوشی اور رب کی رضا۔
جس نے کی بندگی بندگی کی طرح۔
پیاس دولت کی ایسی ہے مٹتی نہیں۔
پیاسی ہے زندگی اِک ندی کی طرح۔
چھوڑ کر دور مجھ کو تم جب سے گئے۔
وہ گلی اب کہاں ہے گلی کی طرح ۔
پھول ہو تم ہماری میں بھنورا تیرا۔
مجھ کو لگتی ہو کچی کلی کی طرح ۔
رس ملائی ہو لڈو ہو چھینا ہو تم۔
مجھ کو لگتی ہوتم رس بھری کی طرح ۔
“صغیر” اس کے جیسا ہے کوئی نہیں۔
کون ہوتا جہاں میں کسی کی طرح۔
ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی
خیرا بازار بہرائچ