غزل میری یہ لے جائے اِدھر گئیں اُدھر گئیں
ابھی تنہا جو بیٹھے ہیں، انھیں وہ بزم میں آئیں
غزل میری یہ لے جائیں ادھر گائیں ادھر گائیں
نہ آنے کے بہانے سو بناتے آپ ہیں ہر دن
مگر میری گزارش ہے کبھی تشریف تو لائیں
کھڑی بھر میں فرشتے کو بنا دیتا ہے شیطاں یہ
کریں غصّہ نہ اوروں پر کبھی غصّہ نہ خود کھائیں
حسینوں سے نہیں ملتی محبت چیز ایسی ہے
فقیروں کی دعا ہو تو نصیبوں سے کبھی پائیں
خودی سے بے خودی تک کا سفر آساں نہیں ہوتا
ہزاروں موڑ آتے ہیں کہیں دھوکہ نہ کھا جائیں
شو کمار بلگرام