جام میں جسم ڈھل گیا ہوگا۔
جام میں جسم ڈھل گیا ہوگا۔
وہ بھی پی کر اچھل گیا ہوگا۔
❣️
دیکھ کر جسم کے نشیب و فراز۔
دل سبھی کا مچل گیا ہوگا۔۔
❣️
آنکھ اُسکی غزالہ جیسی ہیں۔
جس نے دیکھا بدل گیا ہوگا۔۔
❣️
کوئی تارا نہیں شباحت میں۔
چاند چھو کر نکل گیا ہوگا۔
❤️
حسن اسکا ہے اک نگینہ سا۔
سنگ دل بھی پگھل گیا ہوگا ۔
❤️
پڑھ لیا ہوگا جب غزل میری ۔
دل مضطر سنبھل گیا ہوگا ۔
❤️
صغیر آئے گا جب وہ پردیسی۔
جانے کتنا بدل گیا ہوگا۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ڈاکٹر صغیر احمد صدیقی
خیرا بازار بونڈی روڈ بہرائچ